امام احمد رضا قدس سرہ ۱۳۱۰ھ چودھویں صدی ھجری کی وہ مقتدر ، بلند پایہ اور یگانہ روزگار شخصیت ہیں جس کے فکر و فن ،علم و حکمت اور عشق و محبت کے پر شوق تذکروں سے عرب و عجم کا چپہ چپہ آج بہی گونج رہا ہے مختصر سی مدت میں تن تنھاں آپ نے جو کارہائے گراں مایہ انجام دئیے ہیں اس کی حیرت انگیز روداد سے اہل علم و خرد کا ایک عالم محو حیرت ہے ان کے پر شوکت سرمائہ قرطاس و قلم اور عشق پرور تحقیقات و ایجادات کی بلندیوں کے روبرو مشرق و مغرب کے کسی معاصر محقق کو کھڑا کرنا تو دور کی بات ہے ، صدیوں کے دامن پر پھیلی ہوئی منظم اور ہنگامہ خیز تحریکوں کے نتائج بھی ان کے ہم پلہ اور ہم نظر نھیں آتے۔ آپ کی تحریک و عمل اور تجدید و اصلاح کا مرکزی نقطئہ نظر اور بنیادی نصب العین عظمت توحید اور ناموس رسالت کا تحفظ تھا ۔ اسی کے گرد آپ کا پورا کاروان فکر و عمل دائر نظر آتاہے۔ آپ کی حیات کا ایک ایک کردار اور ستر علوم وفنون پر ایک ھزار سے زائد تصانیف جس کے زندہ شواھد اور منھ بولتے حقائق ہیں ۔ نظر تقدیس الوھیت اور عظمت رسالت سے آشنا اور دل محبت الہی اور عشق رسول میں سرشار تھا ۔ سنئے آپ خود فرماتے ہیں۔
بحمد اللہ :
اگر میرے قلب کے دوٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لاالہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ ہوگا۔
[الملفوظ جلد دوم صفہ ۱۶۷]۔
ایک فاضل جامعہ ازہر مصر آپ کی پوری زندگی کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں ۔"آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ ذکر خدا اور یاد مصطفی علیہ اجمل التحیة و الثناء سے معمور ہے پھیلا تو کائنات کی پنہائیوں کو سرشار کرتا گیا اور جب سمٹا تو عشق مصطفی بن کر رہ گیا ، یہی آپ کا ایمان تھا کہ جب حبیب کبریا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جان ایمان اور روح دین ہیں ۔ اسی کے پر چار میں آپ نے اپنی ساری عمر صرف کردی ، اسی لئے اپنی ساری صلاحیتیں اور قابلیتیں وقف کردیں"۔[پیر کرم شاہ ازھری، مقالات یوم رضا حصہ دوم صفحہ ۲۲]۔
اس عاشق پرسوز کے عشق کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے جانثاروں وفا داروں کے قدموں کے نیچے دل کا فرش بچھا کر بھی اہتمام شوق کی تشنگی محسوس کرتا ہے ۔ اور محبوب کے غداروں کو اپنی محفل میں جگہ دینا تو بہت بڑی بات ہے نظر اٹھا کر دیکھنا بہی اپنے عشق کی توہین سمجھتاہے۔ اس تقاضئے عشق پر خود بھی عمل کیا اور زندگی بھر دوسروں کو بھی درس دیتا رہا ۔ مگر جب وصل حبیب کی گھڑیا ں قریب آئیں تو اس کا سوز و ساز اور بھی پر جوش ہوگیا تھا ، ان کی آخری مجلس وعظ و وصیت کا یہ تیور ملاحظہ کیجئے ۔ فرماتے ہیں۔" جس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں ادنی توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو ، اس سے جدا ہوجاؤ ، جس کی بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخی دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ ، معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو"۔[وصایا شریف از امام احمد رضا ]۔
کہتے ہیں کہ عاشق کا عشق دلیل کا محتاج نہیں ہوتا ، دلیل البتہ نگاہ عشق کی محتاج ہوتی ہے نامحرم کے لئے تو قرآن جیسی کتاب بھی ایک سادہ ورق ہے ، اور نگاہ غیر کا انتظار کئے بغیر حق آشنا دل اور حقیقت پسندانہ نگاہیں لے کر فصیل عشق پر آئیے اور حریم عشق میں ایک مثالی عاشق کی صائے پر سوز پر کان لگائے۔
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جسکو ہو درد کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں
غیرت عشق تو ملاحظہ کیجئے یہ بھی گوارا نہیں کہ درد عشق منت کش دوا ہو ، بلکہ اس درد عشق میں وہ لذت قلب و جگر حاصل ہوئی کہ روز افزوں ہونے کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔
وہ عشق سرکار میں ایسا گم ہونا چاہتے ہیں کہ خبر کو بھی انکی حبر نہ ہو۔
ایسا گمادے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو حبر نہ ہو
فراق حبیب میں سلگتے ہوئے دل سے ان کے مزاج عشق کی برہمی ملاحظہ کیجئے۔
اے دل یہ سلگنا کیا جلناہے تو جل بھی اٹھ
دم گھٹنے لگا ظالم کیوں دھونی رمائی ہے
عشق رسالت میں جب ان کی وارفتگئی شوق کا اضطراب بڑھا تو ان کے سوز دروں اور آہ گرم سے ایسا دھواں اٹھا ، جس میں حرارت عشق سے بوئے کباب آنے لگی۔
تونے تو کردیا طبیب آتش سینہ کا علاج
آج کے درد آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
آپ کی نگاہ عشق و مستی میں صرف اسی کی قدر و قیمت ہے جو یاد سرکار سے معمور اور حب حبیب سے لبریز ہو اور وہی سر لائق صد افتخار ہے جو ان کے قدموں پہ قربان ہونے کے لئے بے چین و مضطرب ہو ۔
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قربان گیا
آپ کے عشق نے رہگزر حیات کو تو روشن و منور کیا ہی تھا ۔ نبض حیات ڈوبنے کے بعد قبر کی تاریکی میں بھی شمع فروزاں کا کام کیا ۔
لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے
ان کے دل دیوانہ کی آخری آرزو کا نقطئہ عروج دیکھئے کونین کی ساری عظمتیں قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔
یا الہی جب رضا خواب گراں سے سر اٹھائے
دولت بیدار عشق مصطفی کا ساتھ ہو
امام احمد رضا کے عشق کی داستان جتنی طویل ہے اتنی ہی پر شوق اور ایمان افروز بھی ، چمن زار رضا میں جس طرف بھی رخ کیا جاتا ہے دیدہ و دل خیرہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ آپ نے زندگی بھر ناموس رسالت کی حرمتوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کردار عمل اور زبان و قلم سے عشق رسالت کا جو درس دیا ہے اس کی اتھاہ گھرائیوں اور بے پناہ وسعتوں کو دیکھ کر ایک عالم آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ نعت کے اشعار ملاحظہ فرما لینے کے بعد عشق رسالت کے سوز و ساز میں ڈوبا ہوا ایک نثری شہ پارہ بھی دیکھئے ۔ جو وفاداروں کے لئے مزدہ جانفزا ہے اور غداروں کے لئے تازیانئہ عبرت ، فرماتے ہیں۔
اے عزیز ایمان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مر بوط ہے ۔اور آ تش جاں اور سوز جہنم سے
نجات انکی الفت پر منوط جو ان سے محبت نہیں رکھتاواللہ کہ ایمان کی بو اسکی مشام تک نہ آ ئی وہ خو د فر ماتے
ہیں لایو منو احد کم حتی اکو ن احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔
ترجمہ تم میں سے کسی کو ایمان حاصل نہیں ہو تا جب تک کہ میں اسکے ماں باپ اولاد اور سب آدمیوں سے پیارا نہ ہو جاؤں
مزید فر
ماتے ہیں اے عزیز چشم خرد میں سرمئہ انصاف لگاکر اور گوش قبو ل سے پنبہ انکار نکال کر پھر تمام اہل اسلامیہ بلکہ ہر مذہب و ملت کے عقلاءسے پو چھتاپھر کہ عشاق کا اپنے محبوب کے ساتھ کیا طریقہ ہو تا ہے اور غلاموں کو مولی کے ساتھ کیا کر نا چا ہئے آیاتکثیر فضائل وتکثیر مدائح اور انکی خو بی حسن سن کر باغ باغ ہونا جامے میں پھو لا نہ سمانا ۔رد محا سن نفئ کمالات اور ان کے اوصاف حمیدہ سے بانکاوتکذیب پیش آنااگرایک عاقل منصف بہی تجھ سے کہدےنہ وہ دوستی کا مقتضینہ یہ غلامی کے خلاف ہے تو تجھے اختیار ہے ورنہ خداورسول سے شر ما اور حر کت بے جاسے باز آ یقین
؛جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خو بیاں تیرے مٹانے نہ مٹے گی
دیار حبیب نگاہ عشق میں ایک سچے عاشق کے نگاہ میں محبوب کے کاکل درخت اور تن و پیرہن تو عزیز ہو تے ہی ہیں دیار حبیب کے بام و کوچہ وبازار بھی حسین حسین تر اور تسکین دل و جان کا سبب ہو تے ہیں مدینہ طیبہ کو دیار حبیب ہونے کی حیثیت سے کائنات عشق کی مرکزیت حا صل ہے عرش بریں کے نورانی قافلے ہوں یا فرش گیتی کے کار وان شوق سب کا رخ ارض طیبہ ہی کی طرف ہے عاشق کہیں بھی رہے دلوں کی دھڑ کن سے خاک طیبہ کا رشتہ نہیں ٹو ٹتا سلطان عشق امام احمد رضا کی نگاہ میں جلوہ گاہ حبیب پر کونین کی عظمتیں قر بان ہیں ۔خاک طیبہ کے زروں پر کہکشاں جمال بھی شر مندہ ہے اور اسکے صحراپر جنت کی بہاریں بھی نثار ہیں عشق سر مستی میں ڈوبے ہوئے یہوجد آفریں جزبات ملاحظہ ہوں فر ماتے ہیں
جب سے آنکھو ںمیںسمائی ہے مدینہ کی بہار
نظر آتے ہیں خزاں دیدئہ گلستاں ہم کو
جس خاک پہ رکھ تے قدم سید عالم
اس خاک پہ قربان دل شیداں ہے ہمارا
باادب جہکالو سر تاکہ میں نام لوں گل وباغ کا گل تر محمد مصطفی چمن انکا پاک دیار ہے چمن طیبہ ہے جوہ باغ کہ مر غ سدرا برسوں چہکے ہیں جہاں بلبل شیدا ہوکر
آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لئے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلان سو ختہ
اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یوں دل میں آکہ دید ہ تر کو خبر نہ ہو
شفا شریف میں ہے کان مالک رضی اللہ تعا لی عنہ لایر کب دابة بالمدینة وکان یقو ل استحی من اللہ تعالی ان اتا تربة فیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحافردابة امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ طیبہ میں سواری پر سوار نہ ہو تے اور فر ما تے مجھے شرم آتی ہے خدا تعالی سے کہ جس زمین میں حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جلوہ فرماہوں اسے جانور کے سم سے روندوں امام احمد رضاکے عشق و ادب کی سرفرازیوں کا آنداز بہی نرالا ہے وہ حرم محترم اور کو چہ حبیب مین پیدل پاؤںچلنا بھی پسند نہیں کر تے بلکہ چشم و سر کے بل چلنے کی آرزو مند نظر آتے ہیں اور فر ماتے ہیں کہ
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا مو قعہ ہے او جانے و الے
ہاں ہاں راہ مدینہ ہے غا فل ذرا تو جاگ
او پاؤ ں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہ
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے
جان لو یہ راہ جاں فزا میرے مولی کیے در کی ہے
آپ کے عشق ادب اور خاک طیبہ سے شیفتگی کا عالم کتنا کیف پر ور اور حیرت انگیز تہاکہ دیار حبیب سے انے والے ہر مومن اور محیب کے قدم چوم لیتےتہے چا ہے وہ ان سے عمر میں چھو ٹا اور علم میں فرو تر ہی کیوں نہ ہو مگر اسکے باوجود رشک و حسرت سے نڈھال ہو کر فر ما تے ہیں قیس کو عشق مجاز تہا تو مجنو بن کر صحرائے نجد کی خاک چھا ئی اور سگ دیار لیلی کے قدم چو مے اے رضا کیا ایسا مقدر اور بلندی نصیب تیرا بھی ہے ۔
رضا کسی سگ طیبہ کے پاؤں بھی چومے
تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے
تیرے قد موں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھں
کون نظروں میں جنچے دیکھ کے تلوا تیرا
اس گلی کا گدا ہو ں میں جس میں
مانگتے تاجدا ر پھر تے ہیں
مکہ مدینہ اور مذ ہب عشق:۔
ار باب علم ودانش اور علماء و فقہاء کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہے مکہ و مدینہ میں افضل کون ہے اور اپنے اپنے مدعا پر طر فین کے دلائل بھی ہیں ۔مگر عشق کسی دلیل کا محتاج نہیں ہو تا اور امام احمد رضا صاحب علم و بصیرت کے ساتھ ایک عا شق بھی ہیں اسلئے اس سلسلے میں اسکا فیصلہ یہ ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
حا جیوں آؤشہنشا کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے ہو کعبے کا کعبہ دیکھو
غور سے سن تو رضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے میرے پیارے کا روضہ دیکھو
مکہ جلالت الہی کا مر کز ہے اور مدینہ کائنات عشق کی راج دھانی ہے ان تصورات کو ذہن میں رکھ بغیر کسی تبصرے کے پیکر عشق کے جزبات ملاحظہ کیجئے ۔
عاصی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہد و
مکہ نہیں کہ جانچ جہاں خیروشرکی ہے
شان جمال طیبہ جاناہے نفع محض
وسعت جلال مکہ میں سود وضر رکی ہے
کعبہ ہے بشک انجمن آرا دولہن مگر
ساری بہار دولہنوںمیں دولہا کے گھرکی ہے
کعبہ دولہن ہے تربت اطہر نئی دولہن
یہ رشک آفتاب وہ غیرت قمر کی ہے
دیار حبیب میں حاضری کی بے تاب آرزو:۔
ایک محب صادق کی قلبی تمنا ہوتی ہے کہ اسے دیار نبی کی حاضری نصیب ہوجائے زبان ومکان کی وسعتیں سمٹ جائیں قوت پر واز کے لئے اسے بال وپرمل جائے ۔اور جتنی بھی جلدی ہو وہ چمنستان حبیب میں جابیٹھے ۔ اسی آرزو میں وہ تڑپتامچلتااور کڑوٹیں بدل تا ہے شام و صحر دعا ئیں اور التجائیں کرتاہے صبر کا دامن تھام تا ہے تو دم گھٹنے لگتاہے اور پیمانہ ضبط لبریز ہو جاتاہیےحسرت و غم کے اشک رواں ہو جاتے ہیں جب وہ مایوسیوں کی شب تاریک دیکھ تاہے تو نبض حیات دوب نے لگتی ہے اور جب امیدوںکا سویرا نمودار ہو تاہے تو مردہ رگوں میں حیات و مسرت کا لہو دوڑنے لگتاہے کوچئے حبیب کی جانب عاشقوںکے قافلے روانہ ہوتے ہیں تو یہ ولولہ شوق اوربھی دو بالا ہو جاتا ہے ۔اس تناظر میں عاشق رسول امام احمد رضا کی فغان دل آرزوئے شوق اور فراق حبیب میں تپتی ہوئی زندگی کا اضطراب ملاحظہ کیجئے۔
جان و دل ہوش خرد سب تو مدینے پہونچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
سنگ در حضور سے ہم خدا نہ صبر دے
جاناں ہے سر کو جاچکے دل کو قرار آئے کیوں
شمع طیبہ سےمیں پروانہ رہوں میں کب تک دور
ہاں جلادے شرر آتش پنہاں ہم کو
حسرت میں خاک بوسئی طیبہ کو اے رضا
ٹپکاجو چشم مہر سے وہ خون ناب ہو ں
دل بستہ بے قرار جگر چاک اشکبار
غنچہ ہوں گل ہوں برق ہوں سحاب ہوں
قافلہ حجاج دیکھکر امام احمد رضا کے دل کی بے تابی اور ہنگا مہ خیزی ملاحظ کیجئے۔
اے رضا سب چلے مدینہ کو
میں نہ جاؤں ارے خدانہ کرے
پھر اٹھا ولولئہ یاد مغیلان عرب
پھر کھینچادامن دل سوئے بیا بان عرب
اشک بر ساؤ ں چلے کوچہ جاناںسے
نسیم یاخدا جلد کہیں نکلے بخار دامن
جب صبا آتی ہے طیبہ سے ادھر کھل کھلاپڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نکل کر باہر رخ رنگین کی ثناکر تے ہیں
صف عالم اٹھے خالی ہوئی زنداں ٹوٹیں زنجیر یں
گنہگا رو چلو آقانے درکھو لا ہے جنت کا
بارگاہ رسول میں عشق رضاکی سر فرازی:۔
امام احمد رضاکی داستان عشق و ادب سے با خبر ہوجا نے کے بعد بار گاہ رسول میں آپی کی مقبو لیت کا اندزہ بخو بی لگایا جاسکتا ہے ۔مگر پھر بھی تسکین کی خاطر اور اطمنان قلبی کے لئے چند واقعات ذیل میں پڑھئے اگر دل ودماغ کسی خارجی مانع سے بو جھل اور عناد وتعصب کے جرم میں ،ملوث نہیں ہیں ۔تو انشاء اللہ یہ چند شوا ہد اس حقیقت کو حلق کے نیچے اتار نے کے لئے کافی ہوںگے کہ امام احمد رضا کا عشق بار گاہ رسول میں مقبول ہے استاذ محترم مولانا محمد احمد مصباحی استاز الجامعةالاشرفیہ مبارک پور رقم تراز ہیں اعلی حضرت جب دوسری بار ۱۳۲۲ھ میں اقائے کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی بار گاہ میں حاضر ہوئے تو شو ق دید ار کے ساتھ موا جہ عالیہ میں درود شریف پڑھتے رہے انھیں امید تھی کہ ضرور سر کا ر مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت افزائی فرمائینگے اور زیارت جمال سے سر فراز کریں گے لیکن پہلی شب تکمیل آرزو نہ ہو سکی یاس و حسرت کے عا لم میں ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے
وہ سوئے لالہ زار پھر تے ہیں
تیرے دن ائے بہار پھر تےہیں
مقطع میں عاشق مصطفی کا ناز اور جلیل القدر ولی کا عر فان پھر بے کسی ومحرومی کا اظہار کچھ عجب انداز لئے ہوے نظر آتاہے عر ض کر تے ہیں
کو ئی کیوں پو چھے تیری بات رضا
تجھسے کتے ہزار پھر تے ہیں
موا جہ شریف میں یہ نعت عرض کی اور موءدب و منتظر بیٹھگئے قسمت جاگی حجاب اٹھا اور عالم بیداری میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور جمال جہاں آراکے دیدار سے شر فیاب ہوئے ۔یہ آقائے کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ اعزاز ہے جو بڑے ناز کے پالوں کو ہی میسر آتاہے ۔امام احمد رضا قد سرہ خواب میں تو بار بار جمال اقدس سے شرفیاب ہوئے مگر اس بار روضہ مقدسہ کے حضور عالم بیداری ميں دیدار سے سر فراز ہو ئے ہیں جو ان کے عشق وعر فاں کی کھلی ہو ئی دلیل اور بار گاہ رسالت میں ان کی مقبو لیت کا بین ثبوت ہے